پاکستانی سوشل میڈیا پر ایک خبر تیزی سے گردش کر رہی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سعودی حکومت کی جانب سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں سیلفیاں لینے پر پابندی عائد کردی ہے۔ پاکستانی عوام کی جانب سے اس اقدام کو خوب سراہا جارہا ہے لیکن آپ کو یہ جان کر ضرور حیرت ہوگی کہ یہ پابندی 13 یا 14 فروری 2020 کو عائد نہیں کی گئی بلکہ یہ نومبر 2017 میں لگائی گئی تھی۔
مسجدِ حرام اور مدینہ منورہ میں سیلفیاں لینے اور ویڈیوز بنانے پر پابندی ایک روسی نژاد اسرائیلی یہودی ربی کی وجہ سے لگائی گئی تھی۔ نومبر 2017 میں اسرائیل سے تعلق رکھنے والے یہودی ربی بین تزیون نے جعلی شناخت پر سعودی عرب کا سفر کیا اور خود کو مسلمان ظاہر کرکے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ بھی چلا گیا۔
یہودی ربی کی جانب سے اپنے اس سفر کی تصاویر انسٹاگرام پر شیئر کی گئیں تو دنیا بھر میں مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ فیس بک کی ذیلی کمپنی انسٹاگرام نے بھی فوری ایکشن لیتے ہوئے یہودی ربی کا اکاﺅنٹ ہی ڈیلیٹ کردیا تھا ۔
اس واقعے کے بعد نومبر 2017 کے آخری ہفتے میں سعودی حکومت کی جانب سے مسجد حرام اور روضہ رسول ﷺ پرکسی بھی ڈیوائس کے ذریعے سیلفیاں لینے یا ویڈیوز بنانے پر پابندی عائد کردی گئی تھی ۔سعودی حکومت نے پابندی عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو بھی شخص سیلفیاں لیتا پکڑا گیا تو اس کی تصاویر ڈیلیٹ کرادی جائیں گی یا اس کا کیمرہ بھی ضبط کیا جاسکتا ہے، اس پابندی کے حوالے سے دنیا بھر کے حج اور عمرہ آپریٹرز کو بھی آگاہ کردیا گیا تھا لیکن اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود اس پابندی پر عملدرآمد ایک بڑا چیلنج ہے۔